سیکورٹی ادارے کی جاسوسی پر یورپی سربراہان مملکت کا اظہاربرہمی امریکہ سے جواب طلب
لندن ... یورپی یونین میں شامل ممالک کے سربراہان نے امریکی سیکیورٹی ایجنسی کی طرف سے اپنی، عوام کی اور حکومتی اہلکاروں کی جاسوسی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ناصرف امریکہ سے جواب طلب کیا ہے بلکہ اس سال کی اختتام سے پہلے متاثرہ سربراہان مملکت کی میٹنگ بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل سمیت دیگریورپی سربراہان اورباشندوں کی جاسوسی کا اسکینڈل منظر عام آنے کے بعد جرمنی اور یورپی یونین آئندہ ہفتے اعلیٰ سطحی وفود واشنگٹن بھیجیں گے۔ برلن میں ایک حکومتی ترجمان کا کہنا ہےکہ جرمنی سے اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار اور چانسلر دفتر سے اعلیٰ اہلکار امریکہ جائیں گے۔
برطانوی اخبارگارڈین کا کہنا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے افشا کی جانے والی دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ امریکی حکام نے 35 عالمی رہنماؤں کے فونوں کی نگرانی کی۔
ان خفیہ دستاویزات کے مطابق امریکہ کی قومی سلامتی کے ادارے (این ایس اے) نے امریکی حکومت کے ایک دوسرے محکمے سے دو سو ٹیلی فون نمبروں کی فہرست ملنے کے بعد جاسوسی شروع کر دی تھی۔
اکتوبر 2006 کی تاریخ والے ان دستاویزات کے مطابق این ایس اے نے امریکہ کے وزارت داخلہ، وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون میں تعینات افسران سے عالمی رہنماؤں کے نمبر حاصل کیے اور صرف ایک ہی افسر نے دو سو سے زیادہ نمبر دیے جن میں سے 35 عالمی رہنماؤں کے تھے حالانکہ ان میں سے کسی رہنما کا نام عام نہیں کیا گیا ہے۔
سپین کے وزیر اعظم ماریانو رخوئے نے کہا ہے کہ وہ سپین میں امریکی سفیر کو طلب کر کے ان سے مبینہ جاسوسی کے الزامات کے بارے میں جواب طلب کریں گے۔ اس سے قبل جرمنی نے اطلاعات کے بعد امریکی سفیر کو طلب کیا کہ امریکہ نے جرمن چانسلر کے موبائل فون کی جاسوسی کی۔ جبکہ یورپی یونین میں شامل ممالک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جاسوسی کے معاملے پر امریکی بداعتمادی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
برسلز میں منعقدہ اجلاس کے بعد ایک متفقہ بیان میں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بداعتمادی پیدا ہونے سے خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کے عمل میں تعاون کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔بیان کے مطابق رہنماؤں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خفیہ معلومات جمع کرنا ایک کلیدی معاملہ ہے اور بداعتمادی اس سلسلے میں ضروری تعاون کو متاثر کر سکتی ہے۔ اسلئے امریکہ اس سال کے آخر تک نگرانی کے متنازع پروگرام پر ان سے بات چیت کرے تاکہ یہ معاملہ حل ہو سکے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ انٹیلی جنس کے بارے میں لگنے والے ہر الزام پر کھلے عام رائے نہیں دے گا تاہم وہ اپنی انٹیلی جنس معلومات کا دوبارہ جائزہ لے رہا ہے۔